امریکا کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو پیدوار میں کمی لانے پر آمادہ کرئے‘ وقت آگیا ہے کہ امریکی قوانین سے باہر بحرالکاہل کے جزیروں میں پڑی امریکی دولت کو واپس ملک میں لایا جائے . امریکی ماہرین اور دانشوروں کی واشنگٹن پر کڑی تنقید
تیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ممالک نے اپنی اقصادیات کو بڑے نقصان سے بچانے اور قیمتوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے اوپیک پلس معاہد ے پر دستخط کردیئے ہیں جس کے نتیجے میں تیل کی عالمی منڈی میں ایک بار پھر توازن پیدا ہو جائے گا. یہ پیش رفت روس اورمیکسیکو کی جانب سے پیداوار میں مطلوبہ کمی پر آمادہ ہونے کے بعد سامنے آئی ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ میکسیکو اپنی تیل کی یومیہ پیداوار میں ایک لاکھ بیرل کی کمی کرنے پر تیار ہو گیا ہے انہوں نے کہا کہ امریکا اس کمی کے سلسلے میں میکسیکو کی مدد کرے گا.
اس سے قبل گزشتہ روز اوپیک پلس گروپ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں اوپیک تنظیم کے رکن ممالک اور تیل پیدا کرنے والے غیر رکن ممالک کے متعلقہ وزرا نے شرکت کی اجلاس کے دوران شریک ممالک نے تعاون کا اعلان کیا اور باور کرایا کہ تیل کی منڈیوں کو پھر سے مستحکم کرنے کے لیے وہ مقررہ فیصلوں کی پاسداری کریں گے. اجلاس میں شریک ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ 10 دسمبر 2016 کو دستخط ہونے والے تعاون کے اعلامیے اور 2 جولائی 2019 کو دستخط ہونے والے میثاقِ تعاون پر عمل کی یقین دہانی کروائی جائے گی.
یکم مئی 2020 سے اوپیک پلس گروپ کی خام تیل کی مجموعی پیداوار میں یومیہ 1 کروڑ بیرل کی کمی کی جائے گی اور پیداوار میں کمی پر عمل درامد 30 جون 2020 تک جاری رہے گا جبکہ اگلے چھ ماہ یعنی یکم جولائی 2020 سے 31 دسمبر 2020 تک مجموعی پیداوار میں یومیہ کمی 80 لاکھ بیرل ہو گی. یکم جنوری 2021 سے 30 اپریل 2022 (16 ماہ) تک تیل کی مجموعی پیداوار میں کمی کا حجم یومیہ 60 لاکھ بیرل ہو گا یہ سمجھوتا 30 اپریل 2022 تک نافذ العمل ہو گا.
سمجھوتے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے تمام بڑے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی میں استحکام کو یقینی بنانے کی حالیہ کوششوں میں حصہ لیں‘ پیداوار میں کمی کے معاہدے کی نگرانی کے لیے مشترکہ وزارتی کمیٹی کے کردار پر زور دیا گیا اس سلسلے میں اوپیک کی مشترکہ تکنیکی کمیٹی اور سکرٹریٹ کا تعاون حاصل رہے گا. معاہدے کے تحت اس بات کی یقین دہانی کہ خام تیل کی پیداوار میں کمی کا اطلاق ثانوی ذرائع کی جانب سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ہو گا ‘.
رواں سال 10 جون کو ”ویبینار“ٹیکنالوجی کے ذریعے اجلاس کا انعقاد ہو گا اجلاس میں تیل کی منڈیوں میں توازن کو یقینی بنانے کے لیے ممکنہ طور پر مطلوب اضافی اقدامات کا تعین کیا جائے گا. واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اس سلسلہ میں تفصیلی گفتگو کی تھی جس کے بعد سعودی عرب نے اوپیک کا اجلاس بلانے کی قرارداد پیش کی تھی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور میکسیکو کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں امریکا اور سعودی عرب کا یہ اقدام ناقابل عمل ہی رہتا.
معاہدے کے حوالے سے میکسیکو کے لیے مراعات کا اعلان تو سامنے آگیا ہے تاہم روسی شرائط منظرعام پر نہیں آسکیں‘صدر ٹرمپ جمعرات کے روز سے روسی صدر پوٹن‘سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک سے رابطے کررہے تھے. امریکی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو پیدوار میں کمی لانے پر آمادہ کرئے کیونکہ تیل مارکیٹ کی بدترین صورتحال میں کئی بڑی امریکی تیل کمپنیاں دیوالہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھیں اور ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ(ڈبلیو آئی ٹی )میں آج خام تیل 22ڈالر76سینٹ فی ڈالر فی بیرل پر ٹریڈ ہوا جوکہ تاریخی کمی ہے فروری میں ڈبلیو آئی ٹی 55ڈالر 95سینٹ پر ٹریڈ ہوتا رہا ہے جبکہ ”اوپیک باسکٹ“او آربی 21ڈالر19سینٹ فی بیرل پر ٹریڈ ہواجبکہ فروری میں او آربی 55ڈالر اور49سینٹ میں ٹریڈ ہوتا رہا ہے.
امریکی ریاست ٹیکساس کے سب سے بڑے شہر ہیوسٹن میں آج پرچون میں تیل ایک ڈالر75سینٹ فی گیلن پر فروخت ہوا جبکہ اپریل2019میں یہ قیمت2ڈالر 55سینٹ فی گیلن تھی جبکہ نیویارک شہر میں تیل کی پرچون قیمت ایک ڈالر75سینٹ فی گیلن ہے امریکی جریدے ”بزنس انسائیڈر“کے مطابق امریکا میں اوسط پرچون قیمت ایک ڈالر30سینٹ فی گیلن چل رہی ہے جوکہ2019میں 2ڈالر60سینٹ فی گیلن تھی.
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی تیل کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے سے امریکی معیشت میں ایک زلزلہ برپا ہوجاتا جس کے انتہائی منفی نتائج مرتب ہوتے ‘کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاﺅن نے کئی کمپنیوں کو ہلاکررکھ دیا ہے اور امریکن ایئرلائنزسمیت کئی بڑی فضائی کمپنیوں اور دیگر ادارے بنک کرپسی فائل کرنے کی باتیں کررہے ہیں . امریکن ایئرلائنز‘یونائیڈایئراور ڈیلٹا جیسی بڑی فضائی کمپنیوں نے ہزاروں ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر بھیج دیا ہے جن میں پائلٹس اور کیبن کرو سمیت گراﺅنڈ آپریشنزکا عملہ بھی شامل ہے اسی طرح سینکڑوں چھوٹی بڑی کمپنیوں نے اپنے مستقل ملازمین کو بھی بغیر تنخواہ کے جبری رخصت پر بھیج دیا ہے اور کمپنیاں واشنگٹن سے بیل آﺅٹ پیکج مانگ رہی ہیں .
امریکہ کے بڑے قومی جریدے ”یوایس ٹوڈے“کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاب مارکیٹ میں صورتحال دن بدن نازک ہوتی جارہی ہے اور ڈیڑھ کروڑکے قریب امریکی بیروزگار ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بند ہونے سے بھی شدید مندی کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے . یوایس ٹوڈے کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر امریکا کے ایک ایسے بحران کا شکار ہورہا ہے جس سے نکلنے میں شاید سالوں لگ جائیں کیونکہ حکومت کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ وہ چھوٹے کاروباروں کو دوبارہ پاﺅں پر کھڑا ہونے کے لیے مدد فراہم کرسکے تجزیہ نگار نے حکومت کی جانب سے بڑی کارپوریشنزکے لیے اربوں ڈالر کے ہنگامی فنڈز دینے کے منصوبے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑی کارپوریشنزکے پاس فنڈزکی کمی نہیں مگر وہ صورتحال سے ہمیشہ کی طرح ہرممکن فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہیں جبکہ چھوٹے کاروبار جوکہ حقیقی طور پر متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے کسی واضح روڈ میپ کا اعلان نہیں کیا گیا .
مصنف اور سی آئی اے کے سابق ڈپٹی چیف مائیکل شوائرزنے اپنے حالیہ مضمون میں کوریا‘ افغانستان‘شام‘یمن‘لیبیا اور عراق سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں امریکا کے فوجی آپریشنزپر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عوا م کا پیسہ ان غیرضروری جنگوں میں جھونکا جارہا ہے اور اب جب دنیا کے ساتھ واشنگٹن بھی ہنگامی صورتحال کا شکار ہے تو دنیا کے امیر ترین ملک کے پا س اس بحران سے نکلنے کے لیے مطلوبہ فنڈزنہیں ہیں.
انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال کو فوری طور پر کنٹرول نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ بیروزگاری اور بھوک کے ستائے امریکی سڑکوں پر نکل آئیں گے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے کھربوں ڈالر ایسی جنگوں میں جھونکے جن سے امریکا یا امریکی عوام کو کوئی فائدہ نہیں تھا . ان کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ امریکی عوام واشنگٹن پر دباﺅ بڑھائیں کہ دنیا میں جاری غیرضروری فوجی مہمات کو ختم کرکے امریکا کی تعمیر وترقی پر توجہ دی جائے انہوں نے کہا کہ بش سنیئرکے زمانے میں شروع کی جانے والی عراق جنگ اور اس سے پہلے روس کے ساتھ سرد جنگ کے زمانے میں جتنا پیسہ ضائع کیا گیا ہے اس سے امریکی عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا تھا.
امریکی حکومت کے سابق اعلی اہلکار ‘مصنف اور ویلاگرجان پرکنزبھی مائیکل شوائرزکے ہم خیال ہیں ان کا ماننا ہے کہ افغانستان ‘عراق‘لیبیا اور دیگر علاقوں میں ”پرائیویٹ کنٹریکٹرز“کو فائدہ پہنچانے کے لیے آپریشنزکو طول دیا گیا ان کا کہنا ہے کہ پینٹاگان اور امریکی حکومت کے سابق اہلکاروں نے ”پرائیویٹ کنٹریکٹرز“کمپنیوں کے ذریعے ڈھیر پیسے کمائے انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکی فوج اور حکومتوں کے کئی سابق اعلی عہدیدار براہ راست ان کمپنیوں کے ساتھ منسلک رہے اور اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے وہ ان کمپنیوں کو ٹھیکے دلواتے رہے .
انہو ں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے اورامریکی قوانین سے باہر بحرالکاہل کے جزیروں میں پڑی امریکی دولت کو واپس ملک میں لایا جائے اور ایک چین کی طرح ایک جامع پالیسی بنائی جائے کہ امریکا کم ازکم اگلے20سال تک کسی جنگ کا حصہ بنے گا نہ ہی خفیہ آپریشنزکو جاری رکھا جائے گا انہوں نے کہا کہ امریکی عوام کا بھی حق ہے کہ وہ ایک ایبل نارمل زندگی سے نکل کر نارمل زندگی گزاریں اور دفاع اور خفیہ آپریشنز پر ہر سال پر خرچ کیئے جانے کھربوں ڈالرز امریکی عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوں.
تیل کی مارکیٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تیل کی مارکیٹ میں استحکام لانا امریکا اور عربوں کی مجبوری ہے مگر روس کو ایسی کوئی مجبوری نہیں کیونکہ اس کی اپنی مارکیٹ ہے اگر روس معاہدے سے ہٹ جاتا ہے تو امریکا اور عربوں کی معاشیات کا برا حال ہوجائے گا اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح بڑی بڑی کارپوریشنزکے لیے تیل کی قیمتوں میں استحکام کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اسی طرح امریکی عوام کی بہبود کے لیے بھی اتنی ہی سنجیدگی دکھاتے ہوئے واشنگٹن فوری طور پر دنیا کے مختلف خطوں میں جاری اپنے آپریشنزکو بند کرئے اور امریکا کو سیکورٹی سٹیٹ بنائے رکھنے کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنایا جائے جس کا وعدہ بانیان نے کیا تھا اور جس کی ضمانت امریکی آئین دیتا ہے.
0 Comments